امربیل قسط نمبر 48

#امر_بیل
#ازعمیرہ_احمد
قسط 48
اگلا دن بہت دھماکہ خیز ثابت ہوا۔ وہ دوپہر کے وقت آفس میں کام کر رہی تھی جب نغمانہ یکدم اس کے کیبن میں داخل ہوئی۔
”مائی گاڈ علیزہ ! تمہیں پتا ہے، صالحہ کے ساتھ کیا ہوا ہے؟” اس نے کیبن میں داخل ہوتے ہی کہا۔
”نہیں…کیا ہوا ہے؟” علیزہ اس کے سوال سے زیادہ اس کے تاثرات دیکھ کر خوفزدہ ہوئی۔
”اس کی گاڑی پر کسی نے فائرنگ کی ہے۔ آج صبح جب وہ آفس آرہی تھی تو۔۔۔”
”مائی گاڈ…تمہیں کس نے بتایا؟ وہ ٹھیک تو ہے؟” علیزہ یکدم پریشان ہو گئی۔
”صالحہ نے خود فون کیا تھا ابھی کچھ دیر پہلے آفس میں…اسی نے بتایا ہے۔”
”اس کا مطلب ہے، صالحہ ٹھیک ہے۔” علیزہ نے سکون کا سانس لیا۔
”ہاں…وہ بہت لکی تھی جو بچ گئی۔” نغمانہ نے کرسی کھینچتے ہوئے کہا ”ان لوگوں نے اس وقت اس کی گاڑی پر فائرنگ کی جب وہ ابھی اپنے گھر سے نکلی تھی۔ فائرنگ کی آواز سنتے ہی اس کے گھر کا گارڈ بھی باہر نکل آیا اور اس نے بھی فائرنگ کی جس کی وجہ سے وہ لوگ بھاگ گئے مگر صالحہ تو بہت زیادہ اپ سیٹ ہے۔ اس نے تیمور صاحب سے بھی بات کی ہے اور کل وہ پریس کانفرنس کر رہی ہے۔”
”وہ جانتی ہے کہ فائرنگ کس نے کی ہے؟”
”سب جانتے ہیں، وہ جن کے خلاف آج کل لکھ رہی ہے، ظاہر ہے ان لوگوں نے ہی۔” نغمانہ بات کرتے کرتے رک گئی۔
”تم عمر جہانگیر کا نام لینا چاہتی ہو۔” علیزہ نے اس کی بات مکمل کرتے ہوئے کہا۔
”ہاں…میں جانتی ہوں، تمہیں یہ بات بری لگے گی مگر عمر جہانگیر کے علاوہ یہ کام اور کوئی نہیں کر سکتا۔ کم از کم آفس میں سب یہی کہہ رہے ہیں اور خود صالحہ کا بھی یہی کہنا ہے عمر جہانگیر نے اس کی چھٹی کے دوران اسے گھر بھی فون کرکے دھمکایا تھا۔”
علیزہ کچھ بے دم ہو گئی۔ اسے یکدم ڈپریشن ہونے لگا تھا۔ آخر عمر جہانگیر کیوں اس طرح کی حرکات میں انوالو ہوتا ہے۔ نغمانہ کچھ اور بھی کہہ رہی تھی۔ مگر علیزہ کو اب کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا۔
عمر کے لیے ایسی کوئی حرکت کرنا ناممکن تھا مگر وہ پھر بھی یہ توقع نہیں رکھتی تھی کہ وہ کسی عورت پر بھی ایسا حملہ کروا سکتا ہے اور وہ بھی تب جب وہ اخبار پر اتنا پریشر ڈال چکا تھا کہ اب اس کے خلاف کچھ بھی شائع نہیں ہو رہا تھا۔ اسے عمر سے گھن آئی…اسے اپنے خاندان سے گھن آئی۔
٭٭٭
شام کو وہ صالحہ سے ملنے اس کے گھر گئی، ملازم نے اسے ڈرائنگ روم میں بٹھایا، کچھ دیر کے انتظار کے بعد وہ واپس آیا۔
”بی بی سو رہی ہیں۔” ملازم نے اسے اطلاع دی۔ علیزہ کچھ دیر اس کا چہرہ دیکھتی رہی پھر اٹھ کھڑی ہوئی۔ ہاتھ میں پکڑا پھولوں کا بوکے اس نے ملازم کی طرف بڑھا دیا۔
”یہ میری طرف سے اسے دے دیں اور اسے بتا دیں کہ علیزہ سکندر اس سے ملنے آئی تھی۔ میں اسے کال کروں گی۔”
”ٹھیک ہے، میں ان کو آپ کا پیغام دے دوں گا۔” ملازم نے سر ہلاتے ہوئے بوکے اس کے ہاتھ سے لے لیا۔ علیزہ نے دو گھنٹے کے بعد گھر سے اسے فون کیا مگر ملازم نے فون پر اس کا نام پوچھنے کے بعد اس سے کہا ”بی بی ابھی بھی سو رہی ہیں۔”
”آپ نے انہیں میرا پیغام دیا؟”
”جی…وہ کھانا کھانے کے بعد دوبارہ اپنے کمرے میں چلی گئی ہیں اور انہوں نے کہا ہے کہ کوئی انہیں ڈسٹرب نہ کرے۔” ملازم نے اسے صالحہ کا پیغام دیا۔
علیزہ نے فون بند کرکے صالحہ کے موبائل پر اسے کال کی۔ کال ریسیو نہیں کی گئی۔ وہ صاف طور پر اسے نظر انداز کر رہی تھی۔ اس سے بات نہیں کرنا چاہتی تھی۔
علیزہ اس کی کیفیات کو سمجھ سکتی تھی۔ وہ یقیناً اس وقت عمر جہانگیر کے خاندان کے ہر فرد کو اپنا دشمن سمجھ رہی ہو گی اور چند دن پہلے علیزہ کے ساتھ ہونے والی گفتگو سے اس نے یہی اخذ کیا ہو گا کہ علیزہ بھی عمر جہانگیر اور اس کے ہر اقدام کی مکمل حمایت کرتی ہے۔
اگلے دن کے اخبارات نے اس خبر کو فرنٹ پیج نیوز بنایا تھا۔ عمر جہانگیر پر اور کیچڑ اچھالا گیا تھا۔ اس کے حوالے سے اگلی پچھلی بہت سی خبروں کو اخبار میں لگایا گیا تھا اور اس بار صرف ان کا اخبار ہی یہ سب شائع نہیں کر رہا تھا بلکہ ہر اخبار اس کے بارے میں اسی طرح کی خبریں لگا رہا تھا۔
تیسرے دن کے اخبارات عمر کے بارے میں کچھ اور خبریں لے کر آئے تھے۔ صالحہ پرویز کی پریس کانفرنس کو نمایاں کوریج دی گئی تھی جب کہ عمر جہانگیر کی تردید کو ایک سنگل کالمی خبر بنا کر پچھلے صفحے کے ایک کونے میں لگایا گیا تھا۔ اے پی این ایس کی طرف سے اس حملے کی مذمت اور عمر جہانگیر کا برطرفی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
٭٭٭
”آج شام کو لاہور کے سارے صحافی پریس کلب سے گورنر ہاؤس تک احتجاجی واک کر رہے ہیں۔ عمر جہانگیر کی معطلی اور اس کے خلاف اس قاتلانہ حملہ کی انکوائری کے لیے۔ ہمارے اخبار کے سارے لوگ بھی جار ہے ہیں۔ علیزہ تم چلو گی؟”
نغمانہ نے تیسرے دن اسے صبح آفس آتے ہی بتایا۔ علیزہ کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ اسے کیا جواب دے۔
”کوئی زبردستی نہیں ہے، اگر تم اس واک کو جوائن نہیں کرنا چاہتیں تو کوئی بات نہیں۔۔۔” نغمانہ نے اس کے چہرے کے تاثرات دیکھتے ہوئے کہا۔
”میں تمہاری فیلنگز سمجھ سکتی ہوں۔۔۔” اس نے جیسے علیزہ سے ہمدردی کی۔
”میں نے ابھی کچھ طے نہیں کیا، ہو سکتا ہے میں شام کو وہاں آجاؤں۔” علیزہ نے اس سے نظریں چراتے ہوئے کہا۔
وہ شام کو نہ چاہتے ہوئے بھی اس احتجاجی واک میں شرکت کرنے کے لیے چلی گئی۔ اگلے دن آفس میں کولیگز کی چبھتی اور سوالیہ نظروں سے بچنے کے لیے یہی بہتر تھا۔
اسے دیکھ کر وہاں سب کو حیرت ہوئی تھی شاید کوئی بھی وہاں اس کی اس طرح آمد کی توقع نہیں کر رہا تھا۔ باقی لوگوں کے ساتھ ساتھ خود صالحہ پرویز بھی خاصی حیران نظر آئی۔ فائرنگ والے واقعہ کے بعد اس دن پہلی بار ان دونوں کا آمنا سامنا ہوا تھا علیزہ اس کی طرف بڑھ آئی۔
”ہیلو صالحہ…تم کیسی ہو؟” اس نے صالحہ سے پوچھا۔
”میں ٹھیک ہوں۔”
”میں تم سے کونٹیکٹ کرنے کی کوشش کرتی رہی ہوں مگر…شاید تم بہت مصروف تھیں۔” اس نے صالحہ سے کہا۔
”نہیں، میں مصروف نہیں اپ سیٹ تھی۔”
”میں سمجھ سکتی ہوں…اور میں اسی حوالے سے تم سے بات کرنا چاہ رہی تھی، مجھے بہت افسوس ہوا ہے اس واقعہ پر۔”
”شکریہ…میں جانتی ہوں، اور اس بوکے کے لیے بھی شکریہ جو تم نے مجھے بھجوایا۔” صالحہ نے پہلی بار مسکراتے ہوئے کہا۔
”اس کی ضرورت نہیں تھی۔” علیزہ نے اس کاکندھا تھپتھپایا۔
”ویسے مجھے توقع نہیں تھی کہ تم آج یہاں آؤ گی۔” کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد اچانک صالحہ نے اس سے کہا۔
”لیکن میں آگئی۔ کم از کم اس سے یہ تو ثابت ہو گیا کہ میں اپنی فیملی کے ہر غلط قدم کی حمایت نہیں کرتی ہوں۔”
”ہاں، کم ازکم اب میں یہ ضرور جان گئی ہوں۔” صالحہ نے ایک گرم جوش مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ پھر وہ دونوں دوسری باتوں میں مصروف ہو گئیں۔
واک میں صحافیوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی تھی اور ان سب نے پوسٹرز پکڑے ہوئے تھے جن پر عمر جہانگیر کے خلاف بہت سے نعرے درج تھے۔ نغمانہ نے ایک پوسٹر علیزہ کو بھی پکڑا دیا۔
علیزہ نے زندگی میں پہلی بار پوسٹر پکڑ کر سڑک پر اس طرح کسی واک میں حصہ لیا تھا اور وہ خاصی خفت کا شکار ہو رہی تھی مگر وہاں موجود باقی سب صحافیوں کے لیے یہ سب عام سی بات تھی بہت سی واکس میں سے ایک بلکہ احتجاجی واک سے زیادہ ان کے لیے یہ گپ شپ کرنے کا ایک موقع تھا۔ پریس کلب سے گورنر ہاؤس جا کر کچھ سینئر صحافیوں نے گورنر ہاؤس کے ایک اہلکار کو ایک یادداشت بھی پیش کی تھی اور پھر گورنر کے پرسنل سیکرٹری سے بھی ان صحافیوں کی ملاقات کروائی گئی۔
ان صحافیوں کی واپسی پر ان کے چہروں پر خاصا اطمینان تھا۔
”گورنر صاحب نے یقین دلایا ہے کہ وہ زیر اعلیٰ سے بات کرکے کل عمر جہانگیر کو معطل کر دیں گے۔”
صحافیوں میں سے ایک نے بلند آواز میں وہاں کھڑے دوسرے صحافی کو بتایا تھا۔ کچھ دیر کی مزید گپ شپ کے بعد تمام صحافی وہاں سے جانے لگے۔ علیزہ بھی وہاں سے واپس گھر آگئی۔
٭٭٭
رات آٹھ بجے جب وہ گھر واپس آئی تو جنید اس کا منتظر تھا، وہ اور نانو دونوں لاؤنج میں بیٹھے باتوں میں مصروف تھے۔
”میں نے تمہیں بہت دفعہ رنگ کیا۔ تم کہاں تھیں۔ تم نے موبائل کیوں آف کیا ہوا تھا؟” جنید نے اسے دیکھتے ہی کہا۔
”بس ایسے ہی آف کر دیا تھا۔ کچھ فرینڈز کے ساتھ فورٹریس چلی گئی تھی میں۔” علیزہ نے صوفہ پر بیٹھتے ہوئے جھوٹ بولا۔
”مگر کم از کم موبائل کو تو آف نہ کیا کرو اور خاص طور پر شام کے وقت۔ وہ بھی اتنے لمبے عرصے کے لیے۔ میں تمہیں ٹریس ہی نہیں کر پا رہا تھا۔”
”مگر آپ کے ساتھ تو آج میرا کوئی پروگرام طے نہیں ہوا تھا ورنہ میں جاتی ہی نا۔۔۔” علیزہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”ہاں، پروگرام تو کوئی نہیں تھا۔ میں ویسے ہی آگیا…یہاں کالونی میں کسی کام سے آیا تھا سوچا کہ تم سے اور نانو سے ملتا چلوں۔” جنید نے اپنے آنے کی وجہ بتائی۔
”اب تم کپڑے چینج کر لو تو میں کھانا لگواؤں۔” نانو نے اسے اطمینان سے بیٹھے دیکھ کر کہا۔ وہ اپنا بیگ اٹھا کر اپنے کمرے میں آگئی۔
٭٭٭
اگلے دن صبح ناشتہ کی میز پر آتے ہی اسے نانو کا موڈ آف ہونے کا احسا س ہوا اور اخبار ہاتھ میں لیتے ہی اسے اس کی وجہ پتا چل گئی تھی۔ پہلے ہی صفحے میں چند دوسرے صحافیوں کے ساتھ اس کی اپنی تصویر موجود تھی اور نیچے اس تصویر کے ساتھ صحافیوں کی اس احتجاجی ریلی کم واک کی تفصیلات چھپی ہوئی تھیں۔
علیزہ کو یوں لگا جیسے کسی نے اسے چوری کرتے ہوئے پکڑ لیا ہو۔ اسے توقع نہیں تھی کہ اس کی کوئی تصویر بنائی جائے گی اور پھر اسے اخبار میں اتنی نمایاں جگہ لگا دیا جائے گا۔ اس نے کن اکھیوں سے نانو کو دیکھا۔ وہ بالکل خاموشی سے ناشتہ کرنے میں مصروف تھیں۔ اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ ان کا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لیے ان سے کیا بات کرے۔ پھر ناشتہ شروع کرتے ہوئے اس نے اس وقت ان سے کوئی بات نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
بہتر تھا کہ وہ آفس سے واپس آکر ہی ان سے بات کرتی۔ کیونکہ تب تک ان کا غصہ کسی حد تک کم ہو گیا ہوتا۔ عمر کے بارے میں پچھلے کچھ عرصے سے شائع ہونے والی خبروں سے وہ پہلے ہی بہت پریشان تھیں اور اب اسے بھی اس مہم کا حصہ دیکھ کر یقیناً انہیں شاک پہنچا تھا۔
ناشتہ خاموشی سے کرنے کے بعد وہ آفس چلی آئی مگر آفس آنے کے بعد وہ لاشعوری طور پر جنید کی کال کا انتظار کر رہی تھی۔ وہ جانتی تھی اس وقت تک وہ بھی اخبار دیکھ چکا ہوگا اور دیکھنا چاہتی تھی کہ اس تصویر پر اس کا ردعمل کیا ہوگا۔ خاص طور پر یہ جان کر کہ اس نے جنید سے اپنی کل شام کی مصروفیت کے بارے میں جھوٹ بولا تھا۔
وہ اکثر اسے اسی وقت فون کرتا تھا مگر اس روز اس کا فون نہیں آیا۔ گیارہ بجے کے قریب علیزہ نے کچھ ہمت کرتے ہوئے اس کے موبائل پر اسے فون کیا۔ دوسری طرف سے کال ریسیو کر لی گئی۔
”ہیلو جنید! میں علیزہ ہوں۔”
”میں جانتا ہوں۔” جنید نے اس کی بات کے جواب میں بڑے سپاٹ سے انداز میں کہا۔
”میں آپ کے فون کا انتظار کر رہی تھی۔” علیزہ کی سمجھ میں نہیں آیا، وہ اس کے علاوہ اس سے کیا کہے۔
”یہ بڑی حیران کن بات ہے کہ آپ میرے فون کا انتظار کر رہی تھیں۔” علیزہ اس کے لہجے میں ناراضی تلاش کرنے لگی۔ ”میرا تو خیال تھا کہ آپ خاصی Self reliant (خودمختار )ہیں۔ دوسروں کے انتظار جیسی حماقت نہیں کر سکتیں۔ بہرحال آپ کی بہت مہربانی کہ آپ میرے فون کا انتظار کر رہی تھیں۔”
وہ پہلی بار اس بات سے آگاہ ہوئی تھی کہ جنید طنزیہ گفتگو بھی کر سکتا ہے۔ ”میں مصروف تھا اس لیے فون نہیں کیا۔”
کچھ دیر دونوں طرف خاموشی رہی پھر علیزہ نے ہی ہمت کرتے ہوئے پوچھا ”آپ نے اخبار دیکھا؟”
”روز دیکھتا ہوں؟” اس کا لہجہ اب بھی بے تاثر تھا۔
”آج کا اخبار دیکھا؟”
”شاید تم یہ پوچھنا چاہ رہی ہو کہ میں نے تمہاری تصویر دیکھی؟” اس نے اتنے ڈائریکٹ انداز میں کہا کہ وہ کچھ نہیں بول سکی۔
”ہاں، دیکھی ہے میں نے…بہت اچھی آئی ہے۔” شرمندگی سے علیزہ کا چہرہ سرخ ہو گیا۔
”یقیناً فورٹریس میں بنوائی ہو گی تم نے…اپنی فرینڈز کے ساتھ۔” وہ اب بھی کچھ نہیں بول سکی۔
”صحیح کہہ رہا ہوں نا؟” وہ اب بڑے نارمل سے لہجے میں اس سے پوچھ رہا تھا۔
”جنید! میں آپ کو بتا دینا چاہتی۔۔۔” جنید نے اس کی بات کاٹ دی۔
”میں نے کوئی اعتراض نہیں کیا، کیا میں نے کیا ہے؟”
”آپ نے نہیں کیا مگر۔۔۔”جنید نے ایک بار پھر اس کی بات کاٹ دی۔
”اور میں نے کوئی وضاحت بھی نہیں مانگی…کیا مانگی ہے؟”
”نہیں مگر میں پھر بھی معذرت کرنا چاہ رہی ہوں۔”
”کس چیز کے لیے؟”
”غلط بیانی کے لیے۔”
”معذرت چاہتا ہوں مگر اس کو جھوٹ کہتے ہیں جسے آپ غلط بیانی کہہ رہی ہیں۔” وہ کچھ دیر خاموش رہی۔
”ٹھیک ہے، آپ اسے جھوٹ کہہ لیں۔ میں اپنے جھوٹ کے لیے آپ سے ایکسکیوز کرنا چاہتی ہوں۔”
”فائدہ؟” علیزہ کی سمجھ میں نہیں آیا وہ اس کی بات کا کیا جواب دے۔
”مجھے افسوس ہے کہ میں نے آپ سے جھوٹ بولا، مجھے نہیں بولنا چاہیے تھا۔ مجھے آپ کو بتا دینا چاہیے تھا۔” علیزہ نے کچھ دیر کے بعد اس کے سوال کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔
”تمہیں اس چیز پر افسوس ہے کہ تم نے مجھ سے جھوٹ بولا مگر تمہیں اس چیز پر افسوس نہیں ہے کہ تم ایک احمقانہ کام کے لیے وہاں گئی تھیں۔” جنید نے تلخی سے کہا۔
”جنید! میں آپ کو یہ سب کچھ نہیں سمجھا سکتی۔” اس نے کچھ بے بسی سے کہا۔
”تم مجھے یہ سب کچھ صرف اس لیے نہیں سمجھا سکتیں کیونکہ یہ بہت Illogical(غیر منطقی) ہے ایسا کچھ جس کا کوئی سرپیر ہی نہیں ہے۔”
”میرے پاس اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں تھا۔ صالحہ میری کولیگ اور دوست ہے۔”
”عمر جہانگیر تمہارا فرسٹ کزن ہے۔” جنید نے اسی طرح کہا۔
”مگر صالحہ کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔”
”عمر جہانگیر کے ساتھ بھی زیادتی ہو رہی ہے۔” جنید نے ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے کہا۔
”عمر جہانگیر اس سب کا خود ذمہ دارہے۔”
”صالحہ بھی اس کی خود ذمہ دار ہے۔”
”ہم غیر متعلق لوگوں کی وجہ سے آپس میں بحث کیوں کر رہے ہیں؟” علیزہ نے کچھ چڑتے ہوئے کہا۔
”جب غیر متعلق لوگوں کے لیے سڑک پر پوسٹر پکڑ کر کھڑی ہوگی تو پھر بحث تو ہو گی۔ اگر آج کوئی عمر جہانگیر کے لیے ایسی ہی کوئی واک کنڈکٹ کرے تو تم جاؤ گی وہاں؟” علیزہ خاموش رہی۔ جنید تلخی سے ہنسا۔
”نہیں جاؤ گی…میں نے تم سے پہلے کبھی کہا تھا…رشتے دیانت داری مانگتے ہیں اور تم یہ حقیقت تسلیم کرو یا نہ کرو مگر عمر جہانگیر تمہارا فرسٹ کزن ہے۔” جنید نے دوٹوک لہجے میں کہا۔
”میں اپنے گھر والوں کو اس تصویر کی کیا Justification(وضاحت) دے سکتا ہوں کہ میری منگیتر اپنے ہی خاندان والوں کے خلاف پوسٹر پکڑ کر سڑک پر کھڑی ہے؟” علیزہ اپنے ہونٹ کاٹنے لگی۔
”میں نے آپ کو بتایا ہے، میں بہت خوشی سے وہاں نہیں گئی تھی۔ مجھے مجبوراً وہاں جانا پڑا۔”
”نہیں۔ میں یہ وضاحت قبول نہیں کر سکتا…کوئی مجبوراً کچھ بھی نہیں کرتا جب تک کہ اپنی مرضی کسی نہ کسی حد تک اس میں شامل نہ ہو۔” جنید نے اسی طرح ترشی سے کہا۔
”میں آپ سے ایکسکیوز کر تو رہی ہوں۔”
”مجھے تمہاری ایکسکیوز کی ضرورت نہیں ہے علیزہ! جس چیز پر تمہیں شرمندگی محسوس نہیں ہو رہی اس کے لیے ایکسکیوز مت کرو۔” جنید نے دوٹوک انداز میں کہا۔
”تو پھر میں اور کیا کروں، آپ کو بتا تو چکی ہوں کہ۔۔۔”
جنید نے اس کی بات کاٹ دی۔
”میں اس موضوع پر تم سے پھر کبھی بات کروں گا۔” اس کے لہجے کی خفگی اسی طرح برقرار تھی ”اور رات کو میں تمہیں کھانے پر نہیں لے جا سکوں گا کیونکہ مجھے کچھ کام ہے۔” اس نے کل بنایا ہوا پروگرام کینسل کرتے ہوئے کہا۔
”خدا حافظ۔۔۔” اس کے جواب کا انتظار کیے بغیر جنید نے فون بند کر دیا۔
علیزہ نے مایوسی سے اپنے موبائل کو دیکھا ”آخر دوسرے میرا پوائنٹ آف ویو کیوں نہیں سمجھتے۔ عمر جہانگیر کو اتنا سپورٹ کیوں کرتے ہیں۔ تب بھی جب وہ غلط ہو۔” اس نے موبائل میز پر رکھتے ہوئے سوچا۔
٭٭٭
شام کو وہ واپس گھر آئی تو نانو کا غصہ اسی طرح برقرار تھا۔ علیزہ کے ڈپریشن میں کچھ اور اضافہ ہو گیا۔
”میں توقع بھی نہیں کر سکتی تھی کہ تم اس طرح مجھ سے جھوٹ بولو گی۔” انہوں نے رات کو کھانے کی میز پر بولنا شروع کر دیا۔
”تم بہت خود سر ہو گئی ہو علیزہ !” علیزہ نے خاموشی سے کھانا کھاتے کھاتے چمچہ اپنی پلیٹ میں پٹخ دیا۔
”میں نے ایسا کیا کر دیا ہے جس پر آپ سب اسی طرح مجھے ملزم ٹھہرا رہے ہیں۔” اس کی آنکھوں میں آنسو آنے لگے۔
”ہماری فیملی کی حیثیت یہ رہ گئی ہے کہ تم سڑکوں پر پوسٹر پکڑ کر کھڑی ہو۔۔۔” اور وہ بھی اپنی ہی فیملی کے ایک فرد کے خلاف۔” نانو بری طرح مشتعل تھیں اس کے آنسوؤں نے بھی ان کو متاثر نہیں کیا۔ ”تم اب بچی نہیں ہو علیزہ کہ اس طرح کی حماقتیں کرتی پھرو اور میں تمہیں کور کروں۔ انگیجڈ ہو۔ اپنی فیملی کا نہیں تو اپنے ان لاز کا ہی خیال کیا کرو، کیا سوچتے ہوں گے یہ تصویر دیکھ کر وہ تمہارے بارے میں اور ہمارے بارے میں اور خاص طور پر جنید، وہ کیا سوچتا ہوگا تمہارے بارے میں جس سے تم نے کل بڑے دھڑلے سے جھوٹ بولا تھا کہ تم اپنی فرینڈ کے ساتھ فورٹریس گئی تھیں۔”
”کچھ بھی نہیں سوچتا…وہ اور اس کے گھر والے ، بس آپ کو ہی زیادہ فکر ہے کیونکہ یہ عمر کا مسئلہ ہے اور عمر کے خلاف تو آپ کبھی بھی سچ نہیں سن سکتیں۔”
”بد تمیزی مت کرو علیزہ۔” نانو نے اسے ڈانٹا۔
”اس میں بد تمیزی والی کیا بات ہے، عمر نے کیوں صالحہ پر حملہ کروایا تھا؟ اب اگر کروایا ہے تو بھگتے۔”
عمر نے صالحہ پر کوئی حملہ نہیں کروایا۔ وہ اس کی تردید کر چکا ہے۔”


”آپ کیا بات کرتی ہیں نانو…وہ تردید نہیں کرے گا تو اور کیا کرے گا۔ کیا یہ کہے گا کہ ہاں میں نے ہی حملہ کروایا ہے۔”
”مگر اس سارے معاملے سے تمہارا کیا تعلق ہے۔ تم کیوں انوالو ہو رہی ہو اس میں۔ عمر جانے یا صالحہ…تم خواہ مخواہ۔۔۔” علیزہ نے نانو کی بات کاٹ دی۔
”میں کیا انوالو ہو رہی ہوں۔ ایک واک اٹینڈ کر لی، تو آپ سب مجھے اس طرح ملامت کرتے ہیں، آپ نے کبھی عمر کو اس طرح ڈانٹا ہے جس طرح مجھے ڈانٹ رہی ہیں جب کہ میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا اور عمر بہت سارے غلط کام کرتا ہے۔”
”صحیح کام…کون سا صحیح کام…یہ سڑکوں پر کھڑے ہونا، یہ تربیت کی ہے میں نے تمہاری کہ تم اس طرح سڑکوں پر خوار ہوتی پھرو۔ شرم آنی چاہیے۔ آج تک ہمارے خاندان کی کسی عورت نے ایسے کام نہیں کیے جیسے تم کر رہی ہو۔ لوئر مڈل کلاس والی ذہنیت ہوتی جا رہی ہے تمہاری اور کل کو سکندر فون کرکے تمہارے بارے میں پوچھے تو کیا کہوں اس سے میں کہ یہ سب میری تربیت کا نتیجہ ہے۔” وہ بولتی جا رہی تھیں۔ علیزہ نے کچھ کہنے کے بجائے غصہ میں کھانا چھوڑ دیا اور اپنے کمرے میں آگئی۔
اگلے دن وہ آفس میں کام کر رہی تھی جب دوپہر کے قریب اسے پتا چلا کہ صوبائی حکومت نے صحافیوں کے احتجاج کی وجہ سے عمر کو معطل کر دیا تھا اور اس کے خلاف انکوائری کا حکم بھی دیا تھا۔
آفس میں یہ خبر خاصی دلچسپی اور جوش و خروش کے ساتھ سنی گئی تھی۔ خاص طور پر صالحہ خاصی خوش تھی اور علیزہ کو یہ خبر بھی اسی نے سنائی تھی۔ علیزہ نے اسے بجھی ہوئی مسکراہٹ کے ساتھ مبارکباد دی مگر اس خبر کو سنتے ہی اسے یہ احساس ہونا شروع ہو گیا تھا کہ وہ خوش نہیں تھی۔ شاید وہ یہ توقع ہی نہیں کر رہی تھی کہ عمر کو بالآخر معطل کر دیا جائے گا، اسے یہی توقع تھی کہ اس کے خاندان کے دوسرے لوگوں کی طرح عمر بھی بچ جائے گا مگر اب یہ خبر…
”عمر کے ساتھ ٹھیک ہوا، ایسا ہی ہونا چاہیے تھا اس کے ساتھ، جو کچھ اس نے کیا۔ اس کی سزا تو اسے ملنی چاہیے تھی۔” وہ آفس میں سارا وقت اپنی افسردگی کو دور کرنے کے لیے خود سے کہتی رہی مگر اس کے ڈپریشن میں اور اضافہ ہو گیا۔
جنید نے اس دن بھی اسے فون نہیں کیا تھا اور وہ جانتی تھی اگلے دن اخبارات میں اس کی معطلی کی خبر سن کر اس کی ناراضی میں اور اضافہ ہوگا نہ صرف اس کی ناراضی میں بلکہ نانو کے غصے میں بھی جو عمر کی معطلی کا ذمہ دار بھی اسے ہی سمجھیں گی۔
٭٭٭
اس کا اندازہ ٹھیک تھا، اگلے دن اخبارات میں عمر کی معطلی کی خبر پڑھنے کے بعد نانو کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا تھا۔ علیزہ ناشتہ کرتے ہوئے بڑی خاموشی سے ان کی تندوتیز گفتگو سنتی رہی۔ اس کے پاس اس کے علاوہ دوسرا اور کوئی راستہ نہیں تھا۔
”تم کو اندازہ ہے عمر کی معطلی سے اس کا کیریئر کس بری طرح متاثر ہو گا۔ میں پہلے ہی تمہاری اس تصویر کی وجہ سے ایاز اور جہانگیر کی بہت سی باتیں سن چکی ہوں، اپنے خاندان کے خلاف اس قسم کی ریلیز اور واکس میں حصہ لے کر تمہیں کیا مل گیا۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی اپنے ہی خاندان کے خلاف اس طرح کی حرکتیں کرے۔” انہوں نے اشتعال کے عالم میں بولتے ہوئے کہا۔
”ایاز تو اس قدر ناراض ہو رہا تھا جس کی کوئی حد نہیں۔ وہ خود تم سے بات کرنا چاہ رہا تھا مگر میں نے سمجھا بجھا کر اس کا غصہ ٹھنڈا کیا۔ تمہارے لیے ان سب نے کیا کیا نہیں کیا علیزہ اور تم ہو کہ خود اپنے ہی خاندان کو رسوا کرنے پر تلی ہو۔”
”نانو! یہ سب میں نے نہیں، عمر نے۔۔۔” علیزہ نے پہلی بار اپنے دفاع میں کچھ کہنے کی کوشش کی۔
”نام مت لو عمر کا…کچھ نہیں کیا اس نے ، جو بھی کیا ہے تم نے کیا ہے۔ صالحہ، صالحہ… کیا ہے یہ صالحہ…کیوں ہمارے خاندان کے پیچھے پڑ گئی ہے اور تم …تم اس لڑکی کو اپنا دوست کہہ کہہ کر گھر لاتی رہیں۔” نانو سے غصے میں اپنی بات مکمل کرنا مشکل ہو رہا تھا۔
علیزہ نے خاموش رہنا ہی بہتر سمجھا۔ وہ جانتی تھی، اس کی کہی ہوئی کوئی بات بھی اس وقت نانو کی سمجھ میں نہیں آئے گی۔
٭٭٭
اپنی معطلی کے دو دن کے بعد عمر لاہور میں تھا اور اس نے ایک پریس کانفرنس میں اپنے خلاف تمام الزامات کو بے بنیاد اور جھوٹا قرار دیا تھا۔ اس نے یہ بھی کہا تھا کہ اس کے خلاف یہ تمام الزامات لگانے والوں کے سیاسی مفادات ہیں۔ اس نے خاص طور پر اپنے علاقے کے کچھ سیاسی گھرانوں کو اس تمام مسئلہ کی جڑ قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ لوگ اس کی ٹرانسفر کروا کر اپنی مرضی کے شخص کو وہاں لانا چاہتے ہیں اور اس میں ناکامی کے بعد انہوں نے صالحہ پرویز کو اس کے خلاف استعمال کرنا شروع کر دیا۔
آفس میں شام تک اس کی پریس کانفرنس ہی ڈسکس ہوتی رہی۔ سب کے لیے یہ بات حیران کن تھی کہ عمر جہانگیر نے اس طرح دھڑلے سے ان سیاسی گھرانوں کا نام لیا تھا جو صوبائی اور مرکزی حکومت کا حصہ تھے۔ سب کو یقین تھا کہ اس نے اپنے تابوت میں آخری کیل ٹھونک لی تھی۔
”اب یہ شخص نہیں بچ سکے گا…پہلے تو شاید یہ بچ جاتا مگر اب ان سیاسی گھرانوں کو اس طرح دھڑلے سے انوالو کرنے کے بعد پیچھے سے اسے بچانے والا کوئی نہیں رہے گا۔” حسین نے لنچ آور کے دوران کہا وہ ان دو رپورٹرز میں سے ایک تھا جو اس پریس کانفرنس کو کور کرنے گئے تھے۔
”مجھے تو احمق لگا ہے یہ شخص…ایک تو اس طرح پریس کانفرنس کرنا حماقت تھی۔ اس پر مزید ڈسپلنری ایکشن ہو سکتا ہے اس کے خلاف اور دوسرے اس سٹیج پر اس طرح سیاست دانوں کو انوالو کرنا، وہ بھی وہ جو حکومت میں ہیں اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔” دوسرے رپورٹر نواز نے تبصرہ کیا۔
”مگر مجھے اس شخص کے اطمینا ن اور سکون نے حیران کیا۔ لگتا ہی نہیں تھا کہ وہ اپنی معطلی سے پریشان ہے اورپھر جس طرح وہ سوالوں کے جوابات دیتے ہوئے دوٹوک انداز میں ہر بات سے انکار کر رہا تھا۔ میں تو اس سے خاصا متاثرہوا۔
مس علیزہ! آپ کا یہ کزن ہے ٹیلنٹڈ۔۔۔”حسین نے اپنی کرسی کو تھوڑا سا گھماتے ہوئے علیزہ سے کہا۔
سب کی طرح حسین کی بات پر اس نے بھی کچھ مسکرانے کی کوشش کی۔
”مگر بعض دفعہ ضرورت سے زیادہ سمارٹ ہونا ہی بندے کو مروا دیتا ہے، اوور سمارٹ ہونا۔۔۔” نواز نے لقمہ دیتے ہوئے کہا۔
”میں تو اس وقت خاصا حیران ہوا، جب اس نے ان سیاسی گھرانوں کا باقاعدہ نام لیتے ہوئے اس سارے معاملے میں انوالو کیا۔ کوئی دوسرا بیورو کریٹ تو ایسا کر ہی نہیں سکتا اور وہ بھی تب جب وہ معطل بیٹھا ہو۔ اب دیکھتے ہیں کل کے دوسرے اخبارات اس پر کیسی خبریں لگاتے ہیں۔ ” نواز نے چائے کا کپ اٹھاتے ہوئے اپنی بات کو ختم کیا۔ علیزہ نے اس شام کو ایک بار پھر جنید سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی۔ اسے ناکامی ہوئی۔ موبائل پر اس کی کال ریسیو نہیں کی گئی تھی۔ اس نے دوبارہ اس کے گھر فون کیا۔ فون فری نے اٹھایا تھا رسمی علیک سلیک کے بعد اس نے جنید کے بارے میں پوچھا۔
”جنید بھائی ابھی گھر نہیں آئے۔” فری نے اسے اطلاع دی۔
”آفس میں ہیں؟” علیزہ نے پوچھا۔
”یہ تو مجھے نہیں پتا…ہو سکتا ہے، آفس میں ہی ہوں۔” فری نے لاعلمی کا اظہار کیا۔
”مگر آفس تو بند نہیں ہو جاتا اس وقت ؟”
”ہاں ، ہو تو جاتا ہے، مگر بعض دفعہ اگر کام زیادہ ہو تو نہیں بھی ہوتا۔ ویسے بابا تو گھر آگئے ہیں، اس کا مطلب ہے کام زیادہ نہیں ہے۔” فری نے اسے اطلاع دی۔
”آپ ان کے موبائل پر رنگ کیوں نہیں کرتیں؟” فری کو اچانک خیال آیا۔
”میں نے موبائل پر کال کی ہے مگر اس نے کال ریسیو نہیں کی۔ ” علیزہ نے اسے بتایا۔
”اچھا، آپ ایک منٹ ہولڈ کریں، میں بابا سے پوچھ کر آتی ہوں کہ کیا وہ آفس میں ہیں۔” فری نے اسے ہولڈ کرواتے ہوئے کہا۔ چند منٹ کے بعد وہ دوبارہ لائن پر آگئی۔
”بابا کہہ رہے ہیں کہ وہ آفس میں نہیں ہیں۔ بابا سے کچھ دیر پہلے چلے گئے تھے۔” فری نے اسے اطلاع دی۔
”آپ یا تو ان کے موبائل پر دوبارہ کال کریں یا پھر کچھ انتظار کریں، وہ گھر آتے ہیں تو میں انہیں آپ کی کال کے بارے میں بتا دوں گی۔”
”میں کچھ دیر بعد دوبارہ کال کروں گی۔”
”چلیں ایسا کر لیں…ویسے وہ آنے ہی والے ہوں گے۔” فری نے کہا۔ علیزہ نے خدا حافظ کہہ کر فون رکھ دیا۔
پچھلے چند دنوں سے جنید سے اس کا کوئی رابطہ نہیں ہو ا تھا۔ وہ جیسے گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہو گیا تھا اور اس کی اس خاموشی نے علیزہ کو پریشان کرنا شروع کر دیا۔ آج وہ جنید سے اس معاملے پر ایک بار پھر بات کرنا چاہتی تھی۔
رات گیارہ بجے کے قریب اس نے جنید کو ایک بار پھر فون کیا۔ فون اس بار بھی فری نے ریسیو کیا تھا۔ علیزہ کی آواز سنتے ہی اس نے کہا۔
”بھائی تو کافی دیر ہوئی، گھر آگئے تھے اور میں نے انہیں آپ کی کال کا بھی بتایا تھا بلکہ آپ کو فون کرنے کا کہا تھا کیا انہوں نے آپ کو فون نہیں کیا؟”
”نہیں…تم میری ان سے بات کروا دو۔” علیزہ نے اس سے کہا۔
”اچھا آپ ہولڈ کریں۔”فری نے ریسیو ر رکھتے ہوئے کہا۔ علیزہ انتظار کرنے لگی۔ اس بار فری کی واپسی ایک لمبے انتظار کے بعد ہوئی تھی۔
”میں نے انہیں آپ کے فون کا بتایا ہے مگر حیرت کی بات ہے کہ وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ میں آپ سے کہہ دوں کہ وہ سو گئے ہیں۔” فری نے ریسیور اٹھاتے ہی بڑی صاف گوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا۔
”آپ لوگوں کے درمیان کوئی جھگڑا تو نہیں ہو گیا؟” اس بار فری نے قدرے تشویش سے پوچھا۔ ”حالانکہ آپ دونوں جس مزاج کے ہیں۔ ایسے کسی واقعے کی توقع تو نہیں کی جا سکتی۔”
”آپ ایسا کریں کہ ایک بار پھر ہولڈ کریں۔ میں ان سے جا کر کہتی ہوں کہ آپ نے مجھے انہیں جگانے کے لیے کہا ہے۔” علیزہ نے اسے منع کرنا چاہا مگر دوسری طرف سے ریسور رکھ دیا گیا۔ اس بار ایک لمبے انتظار کے بعد اسے ریسیور پر جنید کی آواز سنائی دی۔
”تمہیں کوئی کام تھا؟” رسمی علیک سلیک کے بعد جنید نے بہت سرد لہجے میں اس سے پوچھا۔
”جنید ! کیا یہ ضروری ہے کہ مجھے کوئی کام ہو تو ہی میں آپ کو فون کروں۔”
”ہاں، بہتر یہی ہے۔” علیزہ کو اس کے لہجے اور انداز پر تکلیف ہوئی ۔
”میں ویسے ہی آپ سے بات کرنا چاہتی تھی۔ کافی دن سے ہماری بات نہیں ہوئی اس لیے۔”
”تو اس کے لیے مجھے جگانے کی ضرورت تو نہیں تھی۔ تم صبح مجھے فون کر سکتی تھیں۔”
”میں نے آپ کو جگایا نہیں ہے، فری نے مجھ سے کہا تھا کہ آپ سو نہیں رہے ہیں۔” دوسری طرف وہ کچھ دیر خاموش رہا۔
”ٹھیک ہے، پہلے نہیں سو رہا تھا اب سونا چاہ رہا ہوں گا۔ تم بات کرنا چاہتی تھیں۔ بات ہو گئی۔ اب میں فون بند کر رہا ہوں۔”
”کیا آپ کی ناراضی کبھی ختم ہو گی؟”
”میں تم سے ناراض نہیں ہوں۔ اس کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ ناراض اس شخص سے ہوتے ہیں جسے آپ کی پروا ہو، تم سے ناراض ہو کر تو۔” وہ کچھ کہتے کہتے رک گیا۔
”میں سونے کے لیے جا رہا ہوں، تم دوبارہ فون مت کرنا،” اس نے اس بار اپنی بات ادھوری چھوڑ کر فون بند کر دیا۔
علیزہ کو بے اختیار جھنجھلاہٹ ہوئی۔ اس کا دل چاہا وہ فون توڑ دے… ”ہر ایک نے عمر کے بجائے مجھے کٹہرے میں کھڑا کر دیا ہے۔ عمر کے بجائے مجھے معذرتیں کرنی پڑ رہی ہیں، مجھے وضاحتیں دینی پڑ رہی ہیں اور یہ جنید ایسا تو نہیں تھا پھر اسے کیا ہو گیا ہے، ایک چھوٹی سی بات کو کیوں اس طرح رائی کا پہاڑ بنا رہا ہے۔ کیا صرف عمر جہانگیر کی وجہ سے یہ مجھ سے اس طرح ناراض ہو گیا ہے۔ صرف عمر کی وجہ سے جس سے اس کا دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے جس سے یہ کبھی ایک بار سے زیادہ ملا تک نہیں۔ کیا صرف اس شخص کے لیے مجھے اس طرح اگنور کر رہا ہے۔” وہ جوں جوں سوچ رہی تھی اس کی جھنجھلاہٹ بڑھتی جا رہی تھی۔
”کیا اسے میری پروا نہیں ہے؟ ذرہ برابر بھی کہ اس کے اس طرح کے رویے سے میں کتنی ڈسٹرب ہو رہی ہوں اور یہ عمر جہانگیر کب تک یہ شخص آسیب کی طرح میری زندگی پر منڈلاتا رہے گا۔” وہ ساری رات کھولتی رہی۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *